قہر تھا ہجرت میں خود کو بے اماں کرنا ترا
دشت نامحفوظ اور اس میں مکاں کرنا ترا
اس کہانی میں مرا کردار ہی گویا نہ تھا
یوں حقیقت کو مری بے داستاں کرنا ترا
چھن گیا آکاش کا خیمہ تو شام ہجر میں
کچھ دھوئیں کے بادلوں کو آسماں کرنا ترا
اف! یہ مجبوری کہ جب سارے نشیمن جل گئے
ٹوٹنے والے شجر پر آشیاں کرنا ترا
بھولنا مشکل ہے وہ منظر کہ مجھ کو ایک دن
سر پہ رکھ کر ہاتھ یوں بے سائباں کرنا ترا
مستقل لا حاصلی کو اپنا حاصل مان کر
زندگی کو لمحہ لمحہ رائیگاں کرنا ترا
بد گمانی کی خلش پیدا ہوئی تھی جن دنوں
ان دنوں کو میرے اپنے درمیاں کرنا ترا
غزل
قہر تھا ہجرت میں خود کو بے اماں کرنا ترا
نشتر خانقاہی