قہقہوں کی زد سے یہ گوہر چھپا
اپنی دولت سب سے چشم تر چھپا
آگ برسے گی ابھی کچھ دیر میں
چھوڑ میری فکر اپنا سر چھپا
وسعت عالم میں گنجائش نہیں
مجھ کو اپنی ذات کے اندر چھپا
کام آئے گا برے اوقات میں
خانۂ دل میں ذرا سا شر چھپا
اس خموشی کو سمجھ لوں احترام
یا ترے دل میں ہے میرا ڈر چھپا
اپنی شخصیت کی جامدؔ لاج رکھ
جو پس پردہ ہے وہ منظر چھپا
غزل
قہقہوں کی زد سے یہ گوہر چھپا
عقیل جامد