EN हिंदी
قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے | شیح شیری
qahqahe ki maut hai ya maut ki aawaz hai

غزل

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے

مشتاق انجم

;

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے

ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف
دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے

ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا
چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے

سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں
جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے

دے رہا وہ دلاسے کیوں جفا کرنے کے بعد
چاہتا ہے مجھ سے کیا کیسا مرا ہم راز ہے

کس طرح ہوگا بیاں حال دل بیمار اب
آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے

دور آیا ہے عجب انجمؔ یہاں ہشیار باش
زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے