EN हिंदी
قدم قدم پہ نیا امتحاں ہے میرے لیے | شیح شیری
qadam qadam pe naya imtihan hai mere liye

غزل

قدم قدم پہ نیا امتحاں ہے میرے لیے

عبد اللہ کمال

;

قدم قدم پہ نیا امتحاں ہے میرے لیے
یہ شہر آج بھی اک ہفت خواں ہے میرے لیے

نہیں ہے اب کوئی احساس روز و شب بھی مجھے
بس ایک عرصۂ پیکار جاں ہے میرے لیے

نہ رہ گزار شجر دار ہے نہ آب و سحاب
یہ تیز دھوپ یہ صحرائے جاں ہے میرے لیے

میں اک ستارہ ہوں اس کے فلک سے ٹوٹا ہوا
وہ دھند ہوتی ہوئی کہکشاں ہے میرے لیے

سمیٹ لیتی ہے مجھ کو میں ٹوٹا پھوٹا سہی
یہ رات خرقۂ آوارگاں ہے میرے لیے

مہکتے رہتے ہیں خوابوں میں ہجرتوں کے گلاب
نئی زمین نیا آسماں ہے میرے لیے

عبور کرنا ہے دریائے شور مجھ کو کمالؔ
اور ایک کشتیٔ بے بادباں ہے میرے لیے