قد ترا سرو رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
گلشن دل میں عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دھوپ میں غم کی عبث جی کوں جلایا افسوس
اس کے سایہ میں اماں تھا مجھے معلوم نہ تھا
یار نے ابرو و مژگاں سیں مجھے صید کیا
صاحب تیر و کماں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سب جگت ڈھونڈ پھرا یار نہ پایا لیکن
دل کے گوشہ میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
خاک تیرے قدم پاک کی اے نور نگاہ
سرمۂ دیدۂ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
میں سمجھتا تھا کہ اس یار کا ہے نام و نشاں
یار بے نام و نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
روزہ داران جدائی کوں خم ابروئے یار
ماہ عید رمضاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
نگۂ شوخ نے دل ایک کرشمہ میں لیا
کیا بلا سیف زباں تھا مجھے معلوم نہ تھا
شب ہجراں کی نہ تھی تاب مجھے مثل سراجؔ
رخ ترا نور فشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
غزل
قد ترا سرو رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سراج اورنگ آبادی