قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے
چلے ہوا تو کہوں کس سے میں سنبھال مجھے
سکوت مرگ کے گنبد میں اک صدا بن کے
کبھی حصار غم زیست سے نکال مجھے
کوئی بھی راہ کا پتھر نظر نہیں آتا
میں دیکھتا ہوں اسے حیرت سوال مجھے
مرے وجود میں اک کرب بن کے بکھرا ہے
یہ میرا دل کہ ہوا باعث وبال مجھے
ہوں زیر سنگ رواں آب کی طرح حامدؔ
نمود دے گا مری فکر کا ابال مجھے

غزل
قبائے گرد ہوں آتا ہے یہ خیال مجھے
حامد جیلانی