قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
چل خود ہی لے چلیں ہم اپنے سجن کی پاتی
ہر سطر موج شیریں اک مدعا رکھے ہے
ٹک دیکھ جوئے پر خوں ہے کوہ کن کی پاتی
کاغذ ہری زمیں کا نہیں دیکھتا کہ شاید
پہنچے نہ اس ہنر سے اس کو ہمن کی پاتی
منفذ نگہ کا آنسو گھیرے ہی لیں ہیں پیارے
بانچوں سو کس طرح سے اب میں تمہن کی پاتی
آوارہ داغ دل ہیں نالے سے یوں کہ جیسے
باد خزاں سے درہم ہووے چمن کی پاتی
قائمؔ لکھا تھا اس نے آنے کا شب کو وعدہ
سو دن میں دیکھی سو دم اس سیم تن کی پاتی
غزل
قاصد کو دے نہ اے دل اس گل بدن کی پاتی
قائم چاندپوری