EN हिंदी
قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے | شیح شیری
qaede bazar ke is bar ulTe ho gae

غزل

قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے

نعمان شوق

;

قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے
آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے

ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ
ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے

مجھ کو اس حسن نظر کی داد ملنی چاہئے
پہلے سے اچھے تھے جو کچھ اور اچھے ہو گئے

مدتوں سے ہم نے کوئی خواب بھی دیکھا نہیں
مدتوں اک شخص کو جی بھر کے دیکھے ہو گئے

بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر
کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے