قابل شرح مرا حال دل زار نہ تھا
سننے والے تو بہت تھے کوئی غم خوار نہ تھا
اب وہ جینے کے لئے سوچ رہا ہے تدبیر
اپنے ہاتھوں جسے مرنا کبھی دشوار نہ تھا
مجھ سے پوچھو تو قضا اس کی ہے موت اس کی ہے
دوش احباب پہ جو مر کے گراں بار نہ تھا
چنتے تھے باغ میں آ آ کر انہیں اہل جنوں
آشیاں کا مرے تنکا کوئی بے کار نہ تھا
یہ ہمیں نے تو محبت کی نکالیں رسمیں
آپ پر مرنے کو پہلے کوئی تیار نہ تھا
دام صیاد میں آزاد رہا شکوۂ غم
میں گرفتار تھا لیکن یہ گرفتار نہ تھا
اب انہیں سامنے آنے میں ہے عذر اے بسملؔ
ملنے جلنے سے جنہیں پیشتر انکار نہ تھا
غزل
قابل شرح مرا حال دل زار نہ تھا
بسمل الہ آبادی