قابل دید یہ بھی منظر ہے
ہر خوشی غم کا ایک دفتر ہے
سوچتا ہوں یہی مرا گھر ہے
کس کے جلووں سے اب منور ہے
یاد جاناں ارے معاذ اللہ
جیسے پہلو میں ایک نشتر ہے
ان سے ہر چند رسم و راہ نہیں
سلسلہ غم کا پھر برابر ہے
کیسے ہو مستفیض پیشانی
سنگ دل جب کہ خود ترا در ہے
یک بیک ہنس پڑا ہے دیوانہ
ہر نفس دیکھتا ہے ششدر ہے
امتحاں خضرؔ ہے وفاؤں کا
اس کے ہاتھوں میں آج خنجر ہے

غزل
قابل دید یہ بھی منظر ہے
خضر برنی