پیاسے کو ہر قطرہ ساگر لگتا ہے
ہر منظر اب اس کا منظر لگتا ہے
ہم نے اپنے قد کو اتنا کھینچ لیا
جب بھی اٹھتے ہیں چھت میں سر لگتا ہے
آیا ہے وہ جب تو کوئی بات کرے
اوس کی اس خاموشی سے ڈر لگتا ہے
ہوتی ہے تب اپنے کی پہچان ہمیں
پیٹھ میں جب بھی کوئی خنجر لگتا ہے
ملتا ہے وہ جب بھی آ کر خوابوں میں
یادوں کا ایک میلہ شب بھر لگتا ہے
دن بھر خواب نظر آتے ہیں محلوں کے
شام ڈھلے فٹپاتھ پہ بستر لگتا ہے
ورنہ تو ہیں شوخؔ فقط کچھ دیواریں
وہ جب آ جاتا ہے تو گھر لگتا ہے
غزل
پیاسے کو ہر قطرہ ساگر لگتا ہے
پروندر شوخ