EN हिंदी
پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی | شیح شیری
pyas jo bujh na saki uski nishani hogi

غزل

پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی

نور جہاں ثروت

;

پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی
ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہوگی

وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے
دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہوگی

کر گئی جو مری پلکوں کے ستارے روشن
وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہوگی

پھر اندھیرے میں نہ کھو جائے کہیں اس کی صدا
دل کے آنگن میں نئی شمع جلانی ہوگی

اپنے خوابوں کی طرح شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول
چن رہی ہوں کوئی تصویر سجانی ہوگی

بے زباں کر گیا مجھ کو تو سوالوں کا ہجوم
زندگی آج تجھے بات بنانی ہوگی

کر رہی ہے جو مرے عکس کو دھندلا ثروتؔ
میں نے دنیا کی کوئی بات نہ مانی ہوگی