پیار میں اس نے تو دانستہ مجھے کھویا تھا
جانے کیوں پھر وہ اکیلے میں بہت رویا تھا
اس کو بھی نیند نہیں آئی بچھڑ کر مجھ سے
آخری بار وہ بانہوں میں مری سویا تھا
میرے اشکوں میں رہا وہ بھی برابر کا شریک
میں نے یہ بوجھ اکیلے ہی نہیں ڈھویا تھا
رات بھر تجھ کو سناتا رہا میرا قصہ
رات بھر چاند دریچے میں ترے گویا تھا
پھول نفرت کے اگے ہیں تو تعجب کیسا
تم نے الفت کا کوئی بیج کہاں بویا تھا
خط پہ ٹپکے ہوئے آنسو یہ بتاتے ہیں شکیلؔ
میری تحریر کو بارش نے نہیں دھویا تھا
غزل
پیار میں اس نے تو دانستہ مجھے کھویا تھا
شکیل شمسی