EN हिंदी
پیار کا درد کا مذہب نہیں ہوتا کوئی | شیح شیری
pyar ka dard ka mazhab nahin hota koi

غزل

پیار کا درد کا مذہب نہیں ہوتا کوئی

سلیمان اریب

;

پیار کا درد کا مذہب نہیں ہوتا کوئی
کعبہ و دیر سے مطلب نہیں ہوتا کوئی

سچ تو یہ ہے کہ میں ہر بزم میں تنہا ہی رہا
یوں مگر پاس مرے کب نہیں ہوتا کوئی

جان و ایماں سہی سب کچھ سہی تو مرے لیے
ہائے کس منہ سے کہوں سب نہیں ہوتا کوئی

ایک سایہ تھا جسے میں نے پکڑنا چاہا
وہ جو ہوتا تھا کوئی اب نہیں ہوتا کوئی

چاندنی پھول ہوا جام ستارے خوشبو
زہر کے نام ہیں جس شب نہیں ہوتا کوئی

مجھ کو خود مجھ سے بھی ملنے نہیں دیتی دنیا
چھپ کے ملتا ہوں کبھی جب نہیں ہوتا کوئی

جس کو مل جائے یہ دولت ہو مبارک اس کو
شعر سب کے لئے منصب نہیں ہوتا کوئی