پوری ہوئی جو ہجر کی میعاد آوے گا
قید انا سے ہو کے وہ آزاد آوے گا
اس بت سے جی لگا نہ لگا کیا مجھے ولے
پھر کیا کرے گا جب وہ تجھے یاد آوے گا
میں تو کروں ہوں عمر بھر اک دشت کا سفر
کیا ہوگا جب وہ قریۂ آباد آوے گا
آوے گا اک سے ایک سخنور یہاں مگر
کوئی بھی میرؔ جیسا نہ استاد آوے گا
میں اس کو دیکھتا ہوں تو آتا ہے دھیان میں
کس کام اس کے یہ دل برباد آوے گا
میں جب کہا کہ غم سے طبیعت بحال ہے
بولا وہ روز حشر ہی تو شاد آوے گا
واقف نہیں ہیں آبلے صحرا کی پیاس سے
اور سوچتے ہیں قیس پئے داد آوے گا
بازار ہست و بود میں شیشہ گری مری
کوہ جنوں بھی سر پہ مجھے لاد آوے گا
غزل
پوری ہوئی جو ہجر کی میعاد آوے گا
علی یاسر