EN हिंदी
پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا | شیح شیری
puchhte kya ho tera ye haal kaisa ho gaya

غزل

پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا

صفی اورنگ آبادی

;

پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا
تم نہ جانو تو خدا جانے مجھے کیا ہو گیا

عاشقی میں وہم بڑھتے بڑھتے سودا ہو گیا
قطرہ قطرہ جمع ہوتے ہوتے دریا ہو گیا

وہ سراپا ناز ہے مجھ سے برا تو کیا کروں
چار نے اچھا کہا جس کو وہ اچھا ہو گیا

عاشقی میں نام اگر درکار ہے بدنام ہو
دیکھ سب کچھ ہو گیا جب قیس رسوا ہو گیا

کچھ ہو لیکن اب مرا دل تم سے پھر سکتا نہیں
یہ تو جس کا ہو گیا کم بخت اس کا ہو گیا

اپنے پہلو میں بٹھایا آپ نے اغیار کو
دیکھیے بیٹھے بٹھائے کا یہ جھگڑا ہو گیا

لے لیا یاد مژہ نے مجھ کو سیل اشک سے
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہو گیا

داغ ہائے ہجر میں بھی دل میں ہیں خار شوق بھی
باغ کا باغ اور یہ صحرا کا صحرا ہو گیا

لے کے دل الزام دیتے ہو غنیمت ہے یہی
مال کا مول آ گیا ادلے کا بدلا ہو گیا

دل کی گھبراہٹ نسیم صبح دم سے کم ہوئی
وہ نہ آئے غیب سے سامان پیدا ہو گیا

کیا یہی ہے شرم تیرے بھولے پن کے میں نثار
منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ لینے سے پردا ہو گیا

میری ہر اک بات قانون محبت ہے مگر
اے صفیؔ میں شاعری کرنے سے جھوٹا ہو گیا