پوچھ نہ ہم سے کیسے تجھ تک نقد دل و جاں لائے ہم
کن راہوں سے بچ کر نکلے کس کس سے کترائے ہم
رات اکیلا پا کر خود کو میخانے لے آئے ہم
پی کر جھومے جھوم کے ناچے دیر تلک لہرائے ہم
دنیا والوں نے جینے کی شرحیں کٹھن لگائی تھیں
خوشبو بن کر پھیل گئے ہم بادل بن کر چھائے ہم
کیسے کیسے رشتے جوڑے اجنبیوں نے بھی ہم سے
ساگر تہہ سے دو اک موتی جب سے چن کر لائے ہم
شہر دل میں رات کوئی سودا گر بن کر آیا تھا
نقد دل و جاں سونپ کے اس کو صبح بہت پچھتائے ہم
تشبیہوں کے رنگ محل میں کوئی نہ تجھ کو جان سکا
گیت سنا کر غزلیں کہہ کر دیوانے کہلائے ہم
چندا جیسا روپ تھا اپنا پھولوں جیسی رنگت تھی
تیرے غم کی دھوپ میں جل کر کملائے مرجھائے ہم

غزل
پوچھ نہ ہم سے کیسے تجھ تک نقد دل و جاں لائے ہم
زبیر رضوی