پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
لے خون میں نے بخشا تو یاد کیا کرے گا
ہوں دام میں پر افشاں اور سادگی سے حیراں
کیوں تیز کی ہیں چھریاں صیاد کیا کرے گا
ظالم یہ سوچ کر اب دیتا ہے بوسۂ لب
جب ہونٹ سی دیئے پھر فریاد کیا کرے گا
زنجیر تار داماں ہے طوق اک گریباں
زور جنوں نہ کم ہو حداد کیا کرے گا
ہم ڈوب کر مریں گے حسرت رہے گی تجھ کو
جب خاک ہی نہ ہوگی برباد کیا کرے گا
یعقوب قطع کر دیں امید وصل دل سے
یوسف سا بندہ کوئی آزاد کیا کرے گا
دل لے کے پوچھتا ہے تو کس کا شیفتہ ہے
بھولا ابھی سے ظالم پھر یاد کیا کرے گا
اے خط بیاض عارض درکار ہے جو تجھ کو
تحریر حسن کی کچھ روداد کیا کرے گا
کنج قفس سے اک دن ہوگی رہائی اپنی
مر جائیں گے تو آخر صیاد کیا کرے گا
مثل سپند دل ہے بیتاب سوز غم میں
رہ جائے گا تڑپ کر فریاد کیا کرے گا
اے شیخ بھر گیا ہے کیوں وعظ کی ہوا میں
ریش سفید اپنی برباد کیا کرے گا
ظلم و ستم سے بھی اب ظالم نے ہاتھ کھینچا
اس سے ستم وہ بڑھ کر ایجاد کیا کرے گا
ازبسکہ بے ہنر ہوں میں ننگ معترض ہوں
مضموں پہ میرے کوئی ایراد کیا کرے گا
اے نظمؔ جس کو چاہے وہ دے بہشت دوزخ
نمرود کیا کرے گا شداد کیا کرے گا
غزل
پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
نظم طبا طبائی