پرکھوں سے جو ملی ہے وہ دولت بھی لے نہ جائے
ظالم ہوائے شہر ہے عزت بھی لے نہ جائے
وحشت تو سنگ و خشت کی ترتیب لے گئی
اب فکر یہ ہے دشت کی وسعت بھی لے نہ جائے
پیچھے پڑا ہے سب کے جو پرچھائیوں کا پاپ
ہم سے عداوتوں کی وہ عادت بھی لے نہ جائے
آنگن اجڑ گیا ہے تو غم اس کا تا بہ کے
محتاط رہ کہ اب کے وہ یہ چھت بھی لے نہ جائے
بربادیاں سمیٹنے کا اس کو شوق ہے
لیکن وہ ان کے نام پہ برکت بھی لے نہ جائے
عادل ہے اس کے عدل پر ہم کو یقین ہے
لیکن وہ ظلم سہنے کی ہمت بھی لے نہ جائے
ان صحبتوں کا ذکر تو ذکر فضول ہے
ڈر ہے کہ لطف شکر و شکایت بھی لے نہ جائے
خود سے بھی بڑھ کے اس پہ بھروسہ نہ کیجئے
وہ آئنہ ہے دیکھیے صورت بھی لے نہ جائے
غزل
پرکھوں سے جو ملی ہے وہ دولت بھی لے نہ جائے
شین کاف نظام