پرانی مٹی سے پیکر نیا بناؤں کوئی
دن آ گئے ہیں کہ اب معجزہ دکھاؤں کوئی
پکارتے ہیں افق خاک بے صفات ہوئی
زمین سے شجر آفتاب اگاؤں کوئی
عصا بلند کروں سر کشیدہ لہروں پر
فصیل آب اٹھاؤں ہوا چلاؤں کوئی
سیاہیوں میں چھپے ہیں دلوں کے آئینے
کہیں سے پرتو گم گشتہ ڈھونڈ لاؤں کوئی
تراش لوں کوئی جملہ لب خموشی سے
چراغ حرف سر طاق شب جلاؤں کوئی
غبار رنگ میں بھٹکی ہوئی ہیں خوشبوئیں
ہوا کا ہاتھ بنوں راستہ دکھاؤں کوئی
زمیں سے لوح فلک تک ہجوم چشم و صدا
بکھر چکا ہوں بہت دائرہ لگاؤں کوئی
غزل
پرانی مٹی سے پیکر نیا بناؤں کوئی
نذیر قیصر