پر خوف ظلمتوں سے ہمیں پھر نکالیے
اب کے جو ہو سکے کئی سورج اچھالیے
شامل کسی کا ہاتھ ہے میری اٹھان میں
یہ بیل جو چڑھی تو کوئی آسرا لیے
پتہ ہوں ایک شاخ سے ٹوٹا گرا ہوا
پھرتی رہے گی جانے کہاں تک ہوا لیے
انکار پیاس آگ لہو تن دریدگی
کوفے سے ہو نصیب پلٹنا تو کیا لیے
ہر بار اپنی چپ سے الجھتے رہا کئے
آساں نہیں ہیں حرف و نوا کے سوا لیے
ممکن ہے جسم تاب گہر دل کا بن سکے
یہ خواب ہے تو آنکھ کی سیپی میں پالیے
شاید کسی خیال کی تہ میں چھپے ملیں
ساحل ہرے بھرے کہ سمندر نے آ لیے
غزل
پر خوف ظلمتوں سے ہمیں پھر نکالیے
سید رضا