پر کیف کہیں کے بھی نظارے نہ رہیں گے
دنیا میں اگر عشق کے مارے نہ رہیں گے
دنیائے محبت میں چراغاں نہ ملے گا
پلکوں پہ اگر اشک ہمارے نہ رہیں گے
تم چھوڑ کے مت جاؤ مجھے شہر بلا میں
ورنہ مرے جینے کے سہارے نہ رہیں گے
طے کر لو سفر شب کا کہ موقع ہے غنیمت
پھر چرخ بریں پہ یہ ستارے نہ رہیں گے
غم زیست کے افسانے کا عنوان حسیں ہے
ہم ہوں گے کہاں غم جو ہمارے نہ رہیں گے
بے معنی نظر آئیں گے آنکھوں کے صحیفے
موجود اگر ان میں اشارے نہ رہیں گے
پھر کس پہ یقیں کیسا بھرم کیسی مروت
اعضا بھی ہمارے جو ہمارے نہ رہیں گے
غزل
پر کیف کہیں کے بھی نظارے نہ رہیں گے
عبید الرحمان