پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہو گئی
قبول ہوتے ہوتے ہر دعا ہی اور ہو گئی
ذرا سا رک کے دو گھڑی چمن پہ کیا نگاہ کی
بدل گئے مزاج گل ہوا ہی اور ہو گئی
یہ کس کے نام کی تپش سے پر پر جل اٹھے
ہتھیلیاں مہک گئیں حنا ہی اور ہو گئی
خزاں نے اپنے نام کی ردا جو گل پہ ڈال دی
چمن کا رنگ اڑ گیا صبا ہی اور ہو گئی
غرور آفتاب سے زمیں کا دل سہم گیا
تمام بارشیں تھمیں گھٹا ہی اور ہو گئی
خموشیوں نے زیر لب یہ کیا کہا یہ کیا سنا
کہ کائنات عشق کی ادا ہی اور ہو گئی
جو وقت مہرباں ہوا تو خار پھول بن گئے
خزاں کی زرد زرد سی قبا ہی اور ہو گئی
ورق ورق علیناؔ ہم نے زندگی سے یوں رنگا
کہ کاتب نصیب کی رضا ہی اور ہو گئی
غزل
پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہو گئی
علینا عترت