EN हिंदी
پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا | شیح شیری
pukarta hai magar dhyan mein nahin aata

غزل

پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا

عرفانؔ صدیقی

;

پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا
عجیب حرف ہے امکان میں نہیں آتا

بس ایک نام ہے اپنا نشاں جو یاد نہیں
اور ایک چہرہ جو پہچان میں نہیں آتا

میں گوشہ گیر ہوں صدیوں سے اپنے حجرے میں
مصاف بیعت و پیمان میں نہیں آتا

مجھے بھی حکم نہیں شہر سے نکلنے کا
مرا حریف بھی میدان میں نہیں آتا

میں اس ہجوم میں کیوں اس قدر اکیلا ہوں
کہ جمع ہو کے بھی میزان میں نہیں آتا

مرے خدا مجھے اس آگ سے نکال کہ تو
سمجھ میں آتا ہے ایقان میں نہیں آتا