پکار لیں گے اس کو اتنا آسرا تو چاہئے
دعا خلاف وضع ہے مگر خدا تو چاہئے
بجا کہ میں نے زندگی سے کھائے ہیں بہت فریب
مگر فریب کھانے کو بھی حوصلہ تو چاہئے
میں اپنے عکس کی تلاش کس کے چہرے میں کروں
مجھے بھی زیست نام کا اک آئنا تو چاہئے
نہ اس کے پاس وقت ہے نہ مجھ کو فرصت نظر
جنوں کے واسطے بھی کوئی سلسلہ تو چاہئے
چمن کو مجھ سے ضد سہی گلوں کی بات اور ہے
صبا کے ہاتھ اک پیام بھیجنا تو چاہئے
یہ کیا کہ سر جھکا کے خنجروں کو چومتے رہیں
ستم گروں کو کچھ نہیں تو ٹوکنا تو چاہئے

غزل
پکار لیں گے اس کو اتنا آسرا تو چاہئے
رئیس فراز