EN हिंदी
پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے | شیح شیری
ponchh kar ashk apni aankhon se muskurao to koi baat bane

غزل

پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے

ساحر لدھیانوی

;

پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے
سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا سر اٹھاؤ تو کوئی بات بنے

زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے

رنگ اور نسل ذات اور مذہب جو بھی ہے آدمی سے کمتر ہے
اس حقیقت کو تم بھی میری طرح مان جاؤ تو کوئی بات بنے

نفرتوں کے جہان میں ہم کو پیار کی بستیاں بسانی ہیں
دور رہنا کوئی کمال نہیں پاس آؤ تو کوئی بات بنے