پیو کے آنے کا وقت آیا ہے
جی کے جانے کا وقت آیا ہے
نیم بسمل ہوں تیغ ابرو سیں
تلملانے کا وقت آیا ہے
شب خلوت میں اس پری رو کوں
دکھ سنانے کا وقت آیا ہے
ملک ویران کوں مرے دل کے
پھر بسانے کا وقت آیا ہے
کب تلک ہجر کی اگن میں جلوں
آ بجھانے کا وقت آیا ہے
پیو کے غم میں انجھو بہاتا ہوں
کیا بہانے کا وقت آیا ہے
مثل پروانہ شمع رو پہ سراجؔ
دل جلانے کا وقت آیا ہے
غزل
پیو کے آنے کا وقت آیا ہے
سراج اورنگ آبادی