EN हिंदी
پیری نہیں چلتی کہ فقیری نہیں چلتی | شیح شیری
piri nahin chalti ki faqiri nahin chalti

غزل

پیری نہیں چلتی کہ فقیری نہیں چلتی

ازلان شاہ

;

پیری نہیں چلتی کہ فقیری نہیں چلتی
اس عشق میں ہر ایک کی مرضی نہیں چلتی

پڑتی ہے بنا کر ہمیں رکھنی اسی خاطر
دنیا کے بنا اپنی فقیری نہیں چلتی

ہاتھوں سے گنواتے ہوئے تجھ کو یہی سوچوں
تقدیر کے آگے تو کسی کی نہیں چلتی

کس واسطے رکھ لے گی بھرم میرا یہ دنیا
میں جانتا ہوں میری کہیں بھی نہیں چلتی

دنیا سے بس اتنی سی شکایت رہی ہم کو
یہ ساتھ ہمارے کبھی سیدھی نہیں چلتی