پیری نہیں چلتی کہ فقیری نہیں چلتی
اس عشق میں ہر ایک کی مرضی نہیں چلتی
پڑتی ہے بنا کر ہمیں رکھنی اسی خاطر
دنیا کے بنا اپنی فقیری نہیں چلتی
ہاتھوں سے گنواتے ہوئے تجھ کو یہی سوچوں
تقدیر کے آگے تو کسی کی نہیں چلتی
کس واسطے رکھ لے گی بھرم میرا یہ دنیا
میں جانتا ہوں میری کہیں بھی نہیں چلتی
دنیا سے بس اتنی سی شکایت رہی ہم کو
یہ ساتھ ہمارے کبھی سیدھی نہیں چلتی

غزل
پیری نہیں چلتی کہ فقیری نہیں چلتی
ازلان شاہ