پینے میں احتیاط زیادہ نہیں رہی
پھر میکدے میں بات زیادہ نہیں رہی
ارض و سما بھی ہاتھ سے میرے نکل گئے
مٹھی میں کائنات زیادہ نہیں رہی
پھر یہ ہوا کہ وقت کہیں جا کے کھو گیا
دن جب گھٹا تو رات زیادہ نہیں رہی
میں زندگی میں بارہا تلوار پر چلا
مشکل پئے صراط زیادہ نہیں رہی
پھر یہ ہوا کہ وقت نے منظر چھپا لیے
عید تصورات زیادہ نہیں رہی
کی زندگی کی ہم نے مدارات عمر بھر
اس پر بھی ایک رات زیادہ نہیں رہی
محسوس ہو رہا ہے ترے حال زار سے
اخترؔ تری حیات زیادہ نہیں رہی

غزل
پینے میں احتیاط زیادہ نہیں رہی
جنید اختر