پی رہا ہے زندگی کی دھوپ کتنے پیار سے
دور جو بیٹھا ہوا ہے سایۂ دیوار سے
گوشۂ دل کی خموشی گھر میں بھی ملتی نہیں
گھر کے ہنگامے بھی کم ہوتے نہیں بازار سے
سوچتے کیا ہو مرے گھر میں دیا کوئی نہیں
روشنی تو آ رہی ہے روزن دیوار سے
زندگی کے ہر قدم میں وقت کی رفتار ہے
زندگی کو ناپنا کیا وقت کیا رفتار سے
منزل شہر تمنا شاید اب نزدیک ہے
کیوں نظر آنے لگے ہیں راستے دشوار سے
کس قدر خوددار تھے دو پاؤں کے چھالے نہ پوچھ
کوئی سرگوشی نہ کی زنجیر کی جھنکار سے
دکھ میں جب شبنمؔ اسے دیکھا تو اندازہ ہوا
پھول کی پتی بھی کم ہوتی نہیں تلوار سے
غزل
پی رہا ہے زندگی کی دھوپ کتنے پیار سے
شبنم نقوی