EN हिंदी
پی لے جو لہو دل کا وہ عشق کی مستی ہے | شیح شیری
pi le jo lahu dil ka wo ishq ki masti hai

غزل

پی لے جو لہو دل کا وہ عشق کی مستی ہے

شمیم کرہانی

;

پی لے جو لہو دل کا وہ عشق کی مستی ہے
کیا مست ہے یہ ناگن اپنے ہی کو ڈستی ہے

مے خانے کے سائے میں رہنے دے مجھے ساقی
مے خانے کے باہر تو اک آگ برستی ہے

اے زلف غم جاناں تو چھاؤں گھنی کر دے
رہ رہ کے جگاتا ہے شاید غم ہستی ہے

ڈھلتے ہیں یہاں شیشے چلتے ہیں یہاں پتھر
دیوانو ٹھہر جاؤ صحرا نہیں بستی ہے

جن پھولوں کے جھرمٹ میں رہتے تھے شمیمؔ اک دن
ان پھولوں کی خوشبو کو اب روح ترستی ہے