EN हिंदी
پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے | شیح شیری
pi kar bhi tabiat mein talKHi hai girani hai

غزل

پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے

شمیم کرہانی

;

پی کر بھی طبیعت میں تلخی ہے گرانی ہے
اس دور کے شیشوں میں صہبا ہے کہ پانی ہے

اے حسن تجھے اتنا کیوں ناز جوانی ہے
یہ گل بدنی تیری اک رات کی رانی ہے

اس شہر کے قاتل کو دیکھا تو نہیں لیکن
مقتل سے جھلکتا ہے قاتل کی جوانی ہے

جلتا تھا جو گھر میرا کچھ لوگ یہ کہتے تھے
کیا آگ سنہری ہے کیا آنچ سہانی ہے

اس فن کی لطافت کو لے جاؤں کہاں آخر
پتھر کا زمانہ ہے شیشے کی جوانی ہے

کیا تم سے کہیں کیا ہے آہنگ شمیمؔ اپنا
شعلوں کی کہانی ہے شبنم کی زبانی ہے