EN हिंदी
پھونک دے ہے منہ ترا ہر صاف دل کے تن میں آگ | شیح شیری
phunk de hai munh tera har saf-dil ke tan mein aag

غزل

پھونک دے ہے منہ ترا ہر صاف دل کے تن میں آگ

ولی عزلت

;

پھونک دے ہے منہ ترا ہر صاف دل کے تن میں آگ
سامنے خورشید کے لگتی ہے جو درپن میں آگ

تجھ سے اے بلبل زیادہ گل میں ہے تاثیر عشق
دل میں خوں لب پر ہنسی ہے اس کے پیراہن میں آگ

اہل زر ساز رعونت سے ہوویں گے دوزخی
ڈالتے ہیں شمع کی اول رگ گردن میں آگ

کوہ کن لالہ سے خوں تیرا ہے جوشاں بعد سال
بے ستوں کے دیکھ دائم ہے بھری دامن میں آگ

سوز ہجر کانہا سے جو سانولا تھا عزلتؔ آہ
داغ دار آخر لگی ٹیسو کے بندرابن میں آگ