پھولوں سے چھپ سکا ہے کہیں گلستاں کا حال
ہم جانتے ہیں آج ہے جو اس جہاں کا حال
نظروں میں دار و گیر کا عالم ہے آج بھی
کس دل سے ہم بتائیں تمہیں کارواں کا حال
بجلی کی زد میں آ گیا فصل بہار میں
المختصر یہی ہے میرے آشیاں کا حال
نقشہ کسی کی بزم کا آنکھوں میں پھر گیا
واعظ نے آج چھیڑا جو باغ جناں کا حال
ہے فکر گل کی اس کو نہ کلیوں کا کچھ خیال
ہم کیا بتائیں آج جو ہے باغباں کا حال
بے بال و پر پڑا ہوں قفس میں چمن سے دور
کچھ تو بتاؤ مجھ کو مرے گلستاں کا حال
میرے ہی گلستاں کی نہیں بات اے امیدؔ
ہے ایک ہی سا آج تو سارے جہاں کا حال
غزل
پھولوں سے چھپ سکا ہے کہیں گلستاں کا حال
رگھوناتھ سہائے