EN हिंदी
پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے | شیح شیری
phulon ki hai taKHliq ki shoalon se bana hai

غزل

پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے

سلیم بیتاب

;

پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے
کندن سا ترا جسم جو خوشبو میں بسا ہے

جنگل کے غزالوں پہ عجب خوف ہے طاری
طوفان کوئی شہر کی جانب سے اٹھا ہے

یہ حسن چمن ہے مرے احساس کی تخلیق
ورنہ کہیں گل ہے نہ کہیں موج صبا ہے

ہر لفظ ترے چہرے کی تصویر بنا تھا
کس کرب سے سو بار ترے خط کو پڑھا ہے

ڈالو مرے کانوں میں بھی پگھلا ہوا سیسہ
اے برہمنو میں نے بھی تو وید سنا ہے

تم ڈھونڈتے پھرتے ہو جسے صحن چمن میں
وہ شخص ابھی کوچۂ قاتل کو گیا ہے