پھولوں کی انجمن میں بہت دیر تک رہا
کوئی مرے چمن میں بہت دیر تک رہا
آیا تھا میرے پاس وہ کچھ دیر کے لیے
سورج مگر گہن میں بہت دیر تک رہا
میں روکتا رہا اسے چالاکیوں کے ساتھ
وہ اپنے بھولے پن میں بہت دیر تک رہا
جو شہ ملی تو دل مرا بیباک ہو گیا
نیرنگیٔ بدن میں بہت دیر تک رہا
آنکھوں میں آ گیا ہے مری بھی ذرا سا داغ
پھول اس کے پیرہن میں بہت دیر تک رہا
آیا نہیں ہے کھینچ کے لانا پڑا مجھے
دل یار کے وطن میں بہت دیر تک رہا
اس کے بغیر جیسے جہنم ہے زندگی
میں جنت عدن میں بہت دیر تک رہا
دونوں سے ساتھ ساتھ ملاقات ہو گئی
کچھ سرو کچھ سمن میں بہت دیر تک رہا
غزل
پھولوں کی انجمن میں بہت دیر تک رہا
ذیشان ساحل