پھول پر اوس ہے عارض پہ نمی ہو جیسے
اس کے چہرے پہ مری آنکھ دھری ہو جیسے
اس کی پلکوں پہ رکھوں ہونٹ تو یوں جلتے ہیں
اس کے سینے میں کہیں آگ لگی ہو جیسے
جھیل کے ہونٹ پہ سورج کی کرن لہرائی
میرے محبوب کے ہونٹوں پہ ہنسی ہو جیسے
اب بھی رہ رہ کے مرے دل میں سسکتا ہے کوئی
اس میں مورت کوئی بچپن کی چھپی ہو جیسے
خط میں اس طرح وہ تادیب مجھے کرتی ہے
عمر میں مجھ سے کئی سال بڑی ہو جیسے
میرے بچپن کی پجارن نے مجھے یوں دیکھا
اپنے بھگوان کے چرنوں میں دکھی ہو جیسے
تجھ سے مل کر بھی اداسی نہیں جاتی دل کی
تو نہیں اور کوئی میری کمی ہو جیسے
غزل
پھول پر اوس ہے عارض پہ نمی ہو جیسے
عتیق انظر