پھول خوشبو ان پہ اڑتی تتلیوں کی خیر ہو
سب کے آنگن میں چہکتی بیٹیوں کی خیر ہو
جتنے میٹھے لہجے ہیں سب گیت ہوں گے ایک دن
میٹھے لہجوں سے مہکتی بولیوں کی خیر ہو
چنریوں میں خواب لے کر چل پڑی ہیں بیٹیاں
ان پرائے دیس جاتی ڈولیوں کی خیر ہو
بارشوں کے شور میں کیوں جاگتے ہیں درد بھی
صحن جاں میں رقص کرتی بدلیوں کی خیر ہو
رخت دل کو تھام کر وہ آ گئی ہیں ریت پر
خواہشوں کی خیر ہو ان پگلیوں کی خیر ہو
اب کبوتر فاختائیں جا چکی ہیں گاؤں سے
اے خداوند پیڑ کی اور بستیوں کی خیر ہو
رات ہے بابرؔ کھڑی سیلاب کا بھی زور ہے
ساحلوں کی مانجھیوں کی کشتیوں کی خیر ہو
غزل
پھول خوشبو ان پہ اڑتی تتلیوں کی خیر ہو
احمد سجاد بابر