پھول کھلتے ہی اگر پاؤں میں چھالے ہوں گے
اے جنوں دشت نوردی کے بھی لالے ہوں گے
ان پہ ہو جائیں گے تعمیر حقیقت کے محل
ہم نے جو خواب کبھی ذہن میں پالے ہوں گے
بندگی میری ترے در کی جبیں سائی ہے
میرے سجدے ترے قدموں کے حوالے ہوں گے
مسکراتا ہے ہر اک زخم دل بسمل کا
ہنس کے قاتل نے بھی ارمان نکالے ہوں گے
اے بہاران چمن وقت کا احساس رہے
کھل گئے پھول تو کانٹوں کے حوالے ہوں گے
انقلاب آ ہی گیا صحن چمن میں جنبشؔ
اب بہاروں کے بھی انداز نرالے ہوں گے

غزل
پھول کھلتے ہی اگر پاؤں میں چھالے ہوں گے
جنبش خیرآبادی