پھسلنے والا تھا خود کو مگر سنبھال گیا
عجیب شخص تھا وہ بات ہنس کے ٹال گیا
بدلنے والی ہے رت سائبان سے نکلو
جو شعلہ بار تھا وہ ابر برشگال گیا
تم اپنے آپ کو پہچان بھی نہ پاؤ گے
وہ روشنی میں اندھیرا اگر اچھال گیا
نقاب اپنی برائی پہ ڈالنی تھی اسے
وہ لا کے خاک مری نیکیوں پہ ڈال گیا
قصوروار میں ٹھہراؤں آئینے کو کیوں
جو بولتا تھا ترا اب وہ خد و خال گیا
مزاج اپنا مبارکؔ بدل دیا میں نے
خیال اس کا گئے وقت کی مثال گیا
غزل
پھسلنے والا تھا خود کو مگر سنبھال گیا
مبارک انصاری