EN हिंदी
پھرے ہیں دھن میں تری ہم ادھر ادھر تنہا | شیح شیری
phire hain dhun mein teri hum idhar udhar tanha

غزل

پھرے ہیں دھن میں تری ہم ادھر ادھر تنہا

ظفر اکبرآبادی

;

پھرے ہیں دھن میں تری ہم ادھر ادھر تنہا
تجھے تلاش کیا ہے نگر نگر تنہا

ہمارے ساتھ سبھی ہیں مگر کوئی بھی نہیں
ہم انجمن میں ہیں بیٹھے ہوئے مگر تنہا

گواہ ہیں رہ شوق و طلب کے سناٹے
کیا ہے ہم نے یہ صبر آزما سفر تنہا

چلے گئے ہیں نجانے کہاں شریک سفر
مجھے حیات کی راہوں میں چھوڑ کر تنہا

بہت دنوں سے نہیں تو رفیق دیدہ و دل
بہت دنوں سے اکیلا ہے دل، نظر تنہا

بھلانے والے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ترے بغیر ہے کب سے ترا ظفرؔ تنہا