EN हिंदी
پھر وہی ریگ بیاباں کا ہے منظر اور ہم | شیح شیری
phir wahi reg-e-bayaban ka hai manzar aur hum

غزل

پھر وہی ریگ بیاباں کا ہے منظر اور ہم

والی آسی

;

پھر وہی ریگ بیاباں کا ہے منظر اور ہم
پھر مقابل میں ہے اک ظالم کا لشکر اور ہم

رات کو پچھلے پہر کوئی بلاتا ہے ہمیں
اور لپٹ کر روز سو جاتے ہیں چادر اور ہم

زخم سر کی داستاں اب یاد بھی آتی نہیں
آشنا تھے کس قدر پہلے یہ پتھر اور ہم

اب تو اک مدت سے ہیں دیوار و در کی قید میں
ساتھ رہتے تھے کبھی صحرا سمندر اور ہم

صرف بچوں کی محبت میں یہ رسوائی ہوئی
ورنہ ساحل پر بناتے ریت کا گھر اور ہم

راہگیروں نے ہمیں پہچان کر سکے دئیے
ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے جب سکندر اور ہم

یہ حویلی بھی کبھی آباد تو ہوگی مگر
اب یہاں مدت سے رہتے ہیں کبوتر اور ہم

رہنمائی کے لیے کوئی ستارہ بھیج دے
کب تلک بھٹکیں گے یوں ہی خاک بر سر اور ہم