پھر وہی ہم ہیں خیال رخ زیبا ہے وہی
سر شوریدہ وہی عشق کا سودا ہے وہی
دانہ و دام سنبھالا مرے صیاد نے پھر
اپنی گردن ہے وہی عشق کا پھندا ہے وہی
پھر لگی رہنے تصور میں وہ مژگان دراز
رگ جاں میں خلش خار تمنا ہے وہی
پھر لگا رہنے وہی سلسلۂ ناز و نیاز
جلوۂ حسن وہی ذوق تماشا ہے وہی
پھر ہوا ہم کو دل و دیں کا بچانا مشکل
نگۂ ناز کا پھر ہم سے تقاضا ہے وہی
ناز نے پھر کیا آغاز وہ انداز نیاز
حسن جاں سوز کو پھر سوز کا دعویٰ ہے وہی
محو دید چمن شوق ہے پھر دیدۂ شوق
گل شاداب وہی بلبل شیدا ہے وہی
پھر چمک اٹھی وہ کجلائی ہوئی چنگاری
رخت ہستی ہے وہی عشق کا شعلہ ہے وہی
آرزو جی اٹھی پھر پیار جو اس بت نے کیا
پھر لب یار میں اعجاز مسیحا ہے وہی
پاس ناموس نے پھر رخصت رفتن چاہی
شہرت حسن وہی الفت رسوا ہے وہی
پھر ہوئی لیلیٰ و مجنوں کی حکایت تازہ
ان کا عالم وہی نیرنگؔ کا نقشہ ہے وہی
غزل
پھر وہی ہم ہیں خیال رخ زیبا ہے وہی
غلام بھیک نیرنگ