EN हिंदी
پھر ان کی یاد کے دیپک جلائے ہیں میں نے | شیح شیری
phir unki yaad ke dipak jalae hain maine

غزل

پھر ان کی یاد کے دیپک جلائے ہیں میں نے

ہربنس لال انیجہ جمالؔ

;

پھر ان کی یاد کے دیپک جلائے ہیں میں نے
کہ خفتہ حسرت و ارماں جگائے ہیں میں نے

زمانہ جن کے تصور سے ہی لرز اٹھے
قلیل عمر میں وہ غم اٹھائے ہیں میں نے

غم و الم کے سمندر میں ڈوب کر اکثر
نشاط و عیش کے نغمات گائے ہیں میں نے

نہیں نہیں ہے نہیں قابل یقیں کوئی
خدا کے بندے بہت آزمائے ہیں میں نے

ہوا ہے آج یہ اک لمحۂ طرب حاصل
وگرنہ آنسو ہی آنسو بہائے ہیں میں نے

جمالؔ تلخ تجربات بغض و نفرت سے
ترانے مہر و وفا کے سنائے ہیں میں نے