پھر ان کی یاد کے دیپک جلائے ہیں میں نے
کہ خفتہ حسرت و ارماں جگائے ہیں میں نے
زمانہ جن کے تصور سے ہی لرز اٹھے
قلیل عمر میں وہ غم اٹھائے ہیں میں نے
غم و الم کے سمندر میں ڈوب کر اکثر
نشاط و عیش کے نغمات گائے ہیں میں نے
نہیں نہیں ہے نہیں قابل یقیں کوئی
خدا کے بندے بہت آزمائے ہیں میں نے
ہوا ہے آج یہ اک لمحۂ طرب حاصل
وگرنہ آنسو ہی آنسو بہائے ہیں میں نے
جمالؔ تلخ تجربات بغض و نفرت سے
ترانے مہر و وفا کے سنائے ہیں میں نے

غزل
پھر ان کی یاد کے دیپک جلائے ہیں میں نے
ہربنس لال انیجہ جمالؔ