EN हिंदी
پھر ان کی نگاہوں کے پیام آئے ہوئے ہیں | شیح شیری
phir unki nigahon ke payam aae hue hain

غزل

پھر ان کی نگاہوں کے پیام آئے ہوئے ہیں

راج کمار سوری ندیم

;

پھر ان کی نگاہوں کے پیام آئے ہوئے ہیں
پھر قلب و نظر بخت پہ اترائے ہوئے ہیں

پیمانہ بکف بیٹھ کے میخانے میں ساقی
ہم گردش حالات کو ٹھہرائے ہوئے ہیں

ماحول منور ہے معطر ہیں فضائیں
محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ آئے ہوئے ہیں

گیسو ہیں کہ برسات کی گھنگھور گھٹائیں
عارض ہیں کہ گل دودھ میں نہلائے ہوئے ہیں

کیا بخشیں گے وہ انجمن ناز کو زینت
جو پھول سر شاخ ہی مرجھائے ہوئے ہیں

ہو چشم کرم ان پہ بھی اے پیر خرابات
جو آبلہ پا در پہ ترے آئے ہوئے ہیں

ہے دشت نوردی ہی ندیمؔ ان کا مقدر
جو بارگہہ حسن سے ٹھکرائے ہوئے ہیں