پھر عمر بھر کی نالہ سرائی کا وقت ہے
اے دل پھر ایک بار جدائی کا وقت ہے
کام آ نہ پائیں گے مجھے یہ نیم باز اب
اے چشم تر یہ دیدہ درائی کا وقت ہے
سینے میں یاں کوئی دل بے مدعا نہیں
ہاں چپ ہوں اس لئے کہ بھلائی کا وقت ہے
مجبور طور ہوں سو میں شیریں نوا رہوں
گو جانتا ہوں تلخ نوائی کا وقت ہے
مجھ کو مرے رخ عرق آلود کی قسم
اٹھوں جو وہ کہے کہ لڑائی کا وقت ہے
اب کے ہوئی ہے پھر سے قفس زادوں کو امید
خوش ہو کے کہہ رہے ہیں رہائی کا وقت ہے
مرغ سحر ہے مرغ مصلا ہے اور صبح
تینوں کے بیچ زور نمائی کا وقت ہے
تمجیدؔ فکر کر مرض جاں گداز کی
بیدار ہو کہ راہ نمائی کا وقت ہے
غزل
پھر عمر بھر کی نالہ سرائی کا وقت ہے
سید تمجید حیدر تمجید