پھر ترا شہر تری راہ گزر ہو کہ نہ ہو
اور ہو بھی تو مجھے شوق سفر ہو کہ نہ ہو
ہو نہ ہو پھر سے رگ و پے میں شراروں کا گماں
پھر کبھی دوش پہ میرے ترا سر ہو کہ نہ ہو
مانگ لوں تیرے حوالے سے تو شاید مل جائے
کیا خبر صرف دعاؤں میں اثر ہو کہ نہ ہو
ناامیدی کے یہ شب زاد ڈراتے ہیں مجھے
تیرے آنے سے منور مرا گھر ہو کہ نہ ہو
مجھ سے بھولا نہ گیا ان کے لبوں کا وہ کھنچاؤ
یاد ان کو بھی مرا دیدۂ تر ہو کہ نہ ہو
اب بھی آ جاؤ کوئی دیر کھلی ہیں آنکھیں
کیا خبر پھر کبھی دیوار میں در ہو کہ نہ ہو
ماں کے آنچل کے تلے بیٹھ لو کچھ دیر اے تاجؔ
کیا خبر آگے یہ سایہ یہ شجر ہو کہ نہ ہو
غزل
پھر ترا شہر تری راہ گزر ہو کہ نہ ہو
حسین تاج رضوی