پھر شعلۂ گل موج صبا چاہیے یارو
گل نار گلستاں کی فضا چاہیے یارو
پیراہن جاں چاک رہے تیز ہوا میں
طوفان میں جینے کی ادا چاہئے یارو
مطلوب ہو گر شاہد معنی کی تجلی
الفاظ کی صد رنگ قبا چاہیے یارو
شاداب نئی رت سے ہے گلزار ادب بھی
پھولوں کو تر و تازہ ہوا چاہیے یارو
جتنے بھی دریچے ہیں سبھوں کو نہ کرو بند
اک آدھ دریچہ تو کھلا چاہیے یارو
شیشے کی کوئی چیز سلامت نہ رہے گی
اس دور میں پتھر کی انا چاہئے یارو
دل سنگ ملامت سے حنا رنگ ہے لیکن
کچھ اور رفاقت کا صلہ چاہیے یارو
غزل
پھر شعلۂ گل موج صبا چاہیے یارو
منظر شہاب