EN हिंदी
پھر سے وہ لوٹ کر نہیں آیا | شیح شیری
phir se wo lauT kar nahin aaya

غزل

پھر سے وہ لوٹ کر نہیں آیا

ابن مفتی

;

پھر سے وہ لوٹ کر نہیں آیا
پھر دعا میں اثر نہیں آیا

چین آئے گا کیسے آج کی شب
تارے نکلے، قمر نہیں آیا

لکھتے دیکھا تھا خواب میں ان کو
اب تلک نامہ بر نہیں آیا

میرے مرنے پہ آیا سارا جہاں
جو تھا اک با خبر نہیں آیا

چل بسی ماں لئے کھلی آنکھیں
اس کا، نور نظر نہیں آیا

یوں تو پتھر بہت سے دیکھے ہیں
کوئی تم سا نظر نہیں آیا

شام ڈھلنے لگی ہے اب مفتیؔ
صبح کا بھولا گھر نہیں آیا