پھر رگ شعلۂ جاں سوز میں نشتر گزرا
نالہ کیوں آبلۂ دل سے الجھ کر گزرا
میں ہوں دل دارئ افسون وفا پر نازاں
جو رقیبوں پہ نہ گزرا تھا وہ مجھ پر گزرا
کیا محیط مئے بے رنگ میں طوفاں آیا
جوش رنگ انجمن ناز سے باہر گزرا
تشنۂ حسرت جاوید ہوں میں کیا جانوں
کیوں گلے سے مرے تلخابۂ کوثر گزرا
آؤ میرے دل افسردہ کی تمکیں دیکھو
جاؤ اس کشمکش ناز سے میں در گزرا
لٹ گئی جان تو امید کے پہلو ڈھونڈے
مٹ گئی راہ تو اندیشۂ رہبر گزرا
اس تکلف سے گئی عمر گراں مایہ وفاؔ
ایک دم سینکڑوں برسوں کے برابر گزرا
غزل
پھر رگ شعلۂ جاں سوز میں نشتر گزرا
عبد الہادی وفا